ضلع خیبر میں ریسکیو 1122 کی دو ماہ جنوری اور فروری کی کارکردگی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر سید شعیب منصور کی سربراہی میں ریسکیو 1122 ضلع خیبر نے عوام الناس کو ناگہانی صورتحال میں ایمرجنسی ریسکیو سروس فراہم کرتے ہوئے گزشتہ دو مہینوں میں 700 مختلف قسم کے حادثات و واقعات میں 679 افراد کو بروقت ریلیف دی ہے
جمرود سے ریسکیو ذرائع کے مطابق 59619 ٹیلیفون کالیں موصول ہوئیں جن میں زیادہ تر غیر ضروری اور جعلی کالز تھیں جو لوگ کسی تکلیف، آفت اور ایمرجنسی کے حوالے سے ریسکیو حکام کو بروقت اطلاع دیتے ہیں وہ ذمہ دار شہری کے پیمانے پر پورے اترتے ہیں تاہم جو لوگ بلا وجہ غلط معلومات دیکر ریسکیو حکام اور عملے کو گمراہ کرتے ہیں اور ان کو بلا وجہ تکلیف دیتے ہیں وہ انتہائی غلط کام کرتے ہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے اور جو لوگ غیر مصدقہ معلومات کی بنیاد پر غیر ضروری کالز کرتے ہیں ان کا محاسبہ کیا جانا چاہئے ریسکیو 1122 ہمارا قومی ادارہ ہے اس کے تمام تر اخراجات اس قوم کے ٹیکسوں سے پورے ہوتے ہیں لہذا ان کا وقت اور پیسہ فضول نہیں کیا جائے بلکہ عام لوگ اگر رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں اور ریسکیو ٹیموں کے ساتھ تعان کریں تو یہ قابل ستائش ہے
ضلع خیبر ریسکیو ذرائع کے مطابق ٹریفک حادثات کی تعداد 51 رہی جبکہ میڈیکل کے 297 آگ لگنے کے 07 کرونا 02 گولی لگنے کے06 عمارت گرنے کے 03 اور دیگر 36 قسم کے حادثات میں امداد فراہم کی گئی ہے جس میں 04 افراد موقعے پر جان بحق تھے ریسکیو 1122 نہ صرف عوام الناس کو ناگہانی صورتحال میں امداد فراہم کرتی ہے بلکہ ابتدائی طبی امداد،آگ سے بچا اور ہنگامی صورت میں امداد کے حوالے سے تربیت بھی دیتی ہے اس سلسلے میں ضلع خیبر کے مختلف سکولوں،کمیونیٹی کے ساتھ سرکاری محکموں کے اہلکاروں کو بھی تربیت فراہم کر دی گئی ہے
اس وقت ضلع خیبر ریسکیو کے پاس 11 ایمبولینس گاڑیاں ہیں،فائر بجھانے والی گاڑیاں 2 ہیں، واٹر ٹینکر ایک، ریسکیو گاڑی ایک، ریکوری گاڑی ایک، ایکسکیویٹر ایک،ٹوٹل سٹاف 160، جمرود اور باڑہ میں ایک ایک سٹیشن،لنڈی کوتل، جمرود ملاگوری، باڑہ تیراہ میں ریسکیو کے ریفرل پوائنٹس قائم ہیں تاہم علاقے کے عوام کا مطالبہ ہے کہ لنڈیکوتل،تیراہ اور ملاگوری میں ریسکیو کے مستقل سٹیشن اور پوائنٹس کی ضرورت ہے تاکہ قبائلی عوام انضمام کے ثمرات سے مستفید ہو سکیںضلع خیبر چونکہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جس میں نوکیلے اور خطرناک پہاڑ ہیں لہذا اگر حکومت یہاں ڈرون ٹیکنالوجی،ہیلی کاپٹر اوردیگر ضروری سامان مہیا کریں اور موجود سامان اور مشینری میں اضافہ کریں تو ریسکیو ٹیمیں اس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں
ریسکیو سٹیشنوں پر بڑے وزن والے بھاری کرینوں اور ٹریکٹروں کی ضرورت ہے تاکہ خدانخواستہ اگر پاک افغان شاہراہ ہر کوئی حادثہ پیش آنے تو پھر بھاری بڑی کرین کے بغیر مسئلہ حل کرنے میں مشکل درپیش ہوگیا بلا شبہ ایمرجنسی رابطے کیلئے بین الاقوامی طرز پر کنٹرول روم سسٹم اور ہیلپ لائن نمبر 1122 قائم کردئے گئے ہیں جس کو آسانی سے ملایا جاسکتا ہے اور ریسپانس ٹائم اور ٹیم ورک سے متعلقہ حادثاتی جگہ پر کم وقت میں رسد ممکن بنا دی گئی ہے جو قابل تعریف ہے فی الحال لنڈی کوتل میں ریسکیو کا اپنا کوئی سٹیشن تو نہیں جس کی بہت ضرورت ہے تاہم سنا ہے کہ لنڈی کوتل میں دو یا تین کنال اراضی پر الگ سٹیشن قائم کردیا جائیگا جس سے کام اور خدمت میں مزید بہتری کی امید ہے
ذرائع نے بتایا ہے کہ جمرود شاکس میں تین سو کنال اراضی کی منظوری آخری مراحل میں ہے جس پر خیبر پختون خواہ کی پہلی اکیڈمی بنائی جائیگی جو ریسکیو ڈیپارٹمنٹ کی تاریخ میں اس صوبے کے اندر ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی اس میں کوئی شک نہیں کہ قبائلی علاقوں کو صوبے میں ضم کرنے کے بعد اگر کسی ڈیپارٹمنٹ نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تو وہ ریسکیو ڈیپارٹمنٹ ہے ریسکیو 1122 کے اہلکاروں، عملے اور رضاکاروں کی جس جدید خطوط پر تربیت کی جاتی ہے واقعی قابل تعریف ہے اور یہی وجہ ہے کہ ضلع خیبر میں جہاں کوئی ناگہانی صورتحال پیش آئی ہے
ریسکیو ٹیم اطلاع ملنے کے بعد وہاں برق رفتاری سے پہنچی ہے اور اپنی خدمات پیش کی ہیں حکومت کا کام وسائل، ٹیکنالوجی اور مشینری فراہم کرنا ہے تاہم عوام الناس کا بھی فرض بنتا ہے کہ ہر موقع پر ہر جگہ ریسکیو ٹیموں کے ساتھ مدد اور تعان کریں اور اس تحریر کے ذریعے ریسکیو حکام سے بھری گزارش کرینگے کہ نوجوان رضاکاروں کی ایک بڑی کھیپ تیار کریں اور ان کی جدید خطوط پر تربیت کریں تاکہ ناگہانی حالت میں وہ رضا کار خود مشکل آور تکلیف میں لوگوں کے کام آئیں اور ریسکیو ٹیموں کے ساتھ قومی اور انسانی جذبے کے تحت مدد کرکے ان کا کام آسان بنائیں
بنیادی طور پر اداروں کا کام ہی یہ ہے کہ وہ پہلے مرحلے میں اپنے لوگوں کی تربیت کریں ان کو سہولیات فراہم کریں اور پھر معاشرے کے اندر لوگوں کو تربیت کریں اور ان کی ذہن سازی کریں تاکہ معاشرے کی خدمت کی جاسکے اور ایک پرامن اور خوشحال معاشرے کی تشکیل میں ممد و معاون ثابت ہو سکے اور یہی زندہ قوموں کی نشانی ہے اور اگر ہم تمام کام حکومت پر چھوڑ دیں اور خود تماشائی بنیں تو پھر ہماری مشکلات کبھی کم نہیں ہو سکے گی