پی ٹی آئی کی حقیقی آزادی مارچ میں پشاور سے تحریک انصاف کے20وزرا اور ایم پی ایز نے عمران خان کو تنہا چھوڑ کر پختونخوا ہاس میں پناہ لی۔ حقیقی آزادی مارچ کی تھکان دور کرنے کیلئے صوبائی وزرا اور ایم پی ایز پختونخوا ہاس اسلام آباد چلے گئے۔
ذرائع کے مطابق پارٹی چیئرمین عمران خان، وزیر اعلی محمود خان سمیت کارکنوں کو تنہا چھوڑنے پر پارٹی قیادت نے غائب وزرا سے وزارتیں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پشاور سے تحریک انصاف کی آزادی مارچ جب نصف شب اسلام آباد داخل ہوئی تو دن بھر کی تھکان دور کرنے کیلئے وزرا نے پختونخوا ہاس کا رخ کیا جبکہ بیشتر وزراء اور ایم پی ایز علی الصبح رشتہ داروں کے ہاں چلے گئے۔
پارٹی چیئرمین نے صوبائی وزرا اور ایم پی ایز کی مارچ میں عدم موجودگی سے متعلق پوچھا تو انہیں بتایا گیا وزرا اور ایم پی ایز آزادی مارچ کو چھوڑ کر پختونخوا ہاس اور اپنے رشتہ داروں کے ہاں آرام فرما رہے ہیں۔ جس پر پارٹی چیئرمین عمران خان نے حقیقی آزادی مارچ سے غائب ہونے والے وزرا اور ایم پی ایز کی فہرست طلب کر لی۔
ذرائع کے مطابق عمران خان کو فراہم کردہ فہرست کے مطابق حقیقی آزادی مارچ سے غائب ہونے والوں میں شوکت یوسفزئی، کامران بنگش، مشتاق احمد غنی، طفیل انجم، ریاض خان، عارف احمد زئی، شفیع اللہ، ہمایون خان، فضل شکور، ابراہیم خٹک، اقبال وزیر، امجد علی، تاج محمد ترند، خلیق الرحمن، بابر سلیم سواتی، محب اللہ، ڈاکٹر امجد،عائشہ بانو اورساجدہ شامل ہیں جبکہ پیر مصور غازی، مشتاق غنی، ظہور، سید فخر جہاں رات گزارنے اپنے رشتہ داروں کے ہاں چلے گئے۔
ذرائع کے مطابق فہرست میں وزرا اور ایم پی ایز کی پختونخوا ہاس آمد اور وہاں قیام کرنے کے دورانیہ کی پوری تفصیل فراہم کی گئی ہے۔ جس وقت عمران خان حقیقی آزادی مارچ کو ختم کرنے کا اعلان کر رہے تھے اس وقت یہ وزرا اور ارکان اسمبلی وہاں موجود نہیں تھے۔ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی یا تو پختونخوا ہاس میں موجود تھے یا پھر اپنے رشتہ داروں کے ہاں قیام کئے ہوئے تھے۔
وزرا اور ایم پی ایز کی پختونخوا ہاس آمد کی سی سی ٹی وی فوٹیج عمران خان کو فراہم کر دی گئی ہے۔ وزرا اور ارکان اسمبلی کی کثیر تعداد غائب ہونے پر عمران خان شدید برہم تھے اور اسی وقت وزیر اعلی سے فہرست طلب کی تھی جس کے بعد ان تمام ارکان اسمبلی کی پختونخوا ہاس داخل ہونے اور قیام کرنے کی تفصیل پارٹی سربراہ کو دے دی گئی۔
ذرائع کے مطابق حقیقی آزادی مارچ سے غائب وزرا سے وزارتیں لینے کا امکان ہے جبکہ انہیں آئندہ انتخابات میں ٹکٹ نہ ملنے پر بھی غور کیا جارہاہے۔ پہلے مرحلے میں شوکاز نوٹس دیا جائے گا اور جواب سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں انہیں پارٹی سے نکالا جائے گا۔