پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس قیصر رشید نے کہا ہے جسٹس قیصر رشید نے کہا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر حکومت ایک خاموشی تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے عوام پس رہے ہیں اور وہ خاموش ہے یہ ہو کیا رہا ہے اس ملک میں اس وقت لگتا یہی ہے کہ صوبائی حکومت مافیا کے ہاتھوں یرغمال ہے غریب آدمی کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑ گیا ہے اور حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی ایک طرف 75 روپے فی کلو اٹا خریدیں یا 200 روپے فی کلو ٹماٹر مگر محکمہ خوراک کے حکام کو کہیں یہ مہنگائی نظر نہیں اتی وہ صرف اور صرف اپنے مفاد کیلئے دفتروں میں بیٹھ کر سرکاری مراعات لے رہے ہیں بدقسمتی سے اگر کوئی وزیر یہاں پر ایک معمولی پودا بھی لگائیں تو اس کیلئے کل کے سارے اخبارات کے فرنٹ پیچ پر اشتہارات تو دیا جاتا ہے مگر غریب عوام کیلئے یہ اشتہار نہیں دیا جاتا کہ انہیں سستا اٹا کہاں پر ملے گا ہمیں کسی افسر کے دورے سے کوئی غرض نہیں ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اشیاخورد نوش کی قیمتیں معمول پر لائی جائے اور ان مافیا کے خلاف سخت اقدامات اٹھائیں جائیں
فاضل جسٹس نے یہ ریمارکس گزشتہ روز سعید اخونزادہ ایڈوکیٹ کی جانب سے دائر ایک پٹیشن کی سماعت کے دوران دیئے کیس کی سماعت جسٹس قیصر رشید اور جسٹس لعل جان خٹک پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل سعید اخونزادہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے عدالت نے اس موقع پر ڈپٹی کمشنر پشاور محمد علی اصغر سے استفسار کیا کہ اپ لوگوں کو عدالت نے متعدد بار ہدایات جاری کی تھیں کہ غریب عوام اشیائے خورد نوش کی خرید جواب دے رہی ہے اپ لوگوں نے کیا کیا صرف دفتروں میں بیٹھے ہیں جس پر ڈی سی پشاور محمد علی اصغر نے عدالت کو بتایا کہ وہ خود اس سارے عمل کی نگرانی کررہے ہیں روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی کنٹرول کرنے سے متعلق اجلاس ہوتے ہیں اور صبح سویرے افسران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جو کہ وہاں پر بولی کے عمل کا موازنہ کرتی ہے
جسٹس قیصر رشید نے اس سے استفسار کیا کہ اپ ہمیں یہ بتائیں کہ قیمتیں کتنی کم ہوئی ہے 20 کلو کا اٹا 1500 روپے میں مل رہا ہے یہ کیا ہو رہا ہے اپ لوگ ہمیں بتانا پسند کریں گے کہ غریب ادمی اٹا خریدیں، سبزی خریدیں یا ٹماٹر یا دیگر اشیا خریدیں جس پر ڈی سی نے جواب دیا کہ وہ اس سارے عمل کی نگرانی کررہے ہیں تاہم جو آٹاپنجاب سے ا رہا ہے وہ زیادہ تر ڈیلر خود ہی منگواتے ہیں سرکار نے جو ریٹ مقرر کیا ہے اس کیلئے باقاعدہ فلور ملوں کو کوٹہ جاتا ہے اور اس کوٹے کے تحت ہی فلورملوں کو سپلائی کی جاتی ہے مختلف پوائنٹس پر سستا اٹا دیا جاتا ہے ڈی سی نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اس حوالے سے متعدد فلور ملوں کے لائسنس منسوخ کرنے غیر قانونی طریقے سے مہنگا اٹا فروخت کرنے والوں کی دکانیں سیل کرنے اور گرفتاریوں کا عمل بھی گزشتہ دنوں میں کیا گیا ہے جس پر جسٹس قیصررشید نے کہا کہ ہمیں وہ اقدامات چاہیئے جس سے مہنگائی نیچے لائی جائے صرف کاغذی باتوں سے کچھ نہیں ہوتا
ایڈیشنل سیکرٹری خوراک بیزاد عادل نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے محکمہ خوراک تمام ضلعی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت تمام امور کی نگرانی کررہے ہیں جس پر جسٹس قیصر رشید نے کہا کہ اپ لوگ صرف دفتروں میں بیٹھے ہیں کام کچھ نہیں کررہے وزیر خوراک اور سیکرٹری خوراک بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اگر ضرورت پڑی تو وزیراعلی کو بھی طلب کریں گے ہمارا اس میں کوئی زاتی مسلہ نہیں صرف غریب عوام کو بنیادی خوراک کے اشیا کم قیمتوں پر فراہمی ضلعی انتظامیہ کے زریعے یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں اپ لوگ جائیں اور فیلڈ میں کام کریں دفتروں سے نکل ائیں انتہائی افسوس کی بات ہے کہ صرف دفتروں میں بیٹھ کر وہاں کے مزے لے رہے ہیں اور جس کام کیلئے اپ لوگ بھرتی ہوئے ہیں اس پر اپ لوگ کچھ نہیں کرتے
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سید سکندر شاہ نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے جامع رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی جس پر جسٹس قیصر رشید نے کہا کہ بے شک اپ لوگ رپورٹ کریں لیکن ہمیں ایسی رپورٹ دیں جس میں اپ نے مہنگائی کنٹرول کی ہو اور قیمتی نیچی سطح پر لائی گئیں ہوں عدالت نے انتظامیہ کو حکم دیا کہ تمام اخبارات کے فرنٹ پر سستے پوائنٹس کے اشتہارات دیئے جائیں تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ کہاں پر سستہ اٹا ملتا ہے عدالت نے کیس کی سماعت 22 اکتوبر تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی