پاک افغان بارڈر پر مختلف اداروں کو اختیارات ملنے اور وفاقی حکومت کی جانب سے ٹریڈ میں اضافہ کرنے کیلئے بارڈر کو 24-7 کھولنے کااعلان بھی ٹریڈ اور ٹرانزٹ کی گاڑیوں کو زیادہ تعداد میں کلیئر کرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے 2008-9 میںاڑھائی ارب ڈالر تک پہنچنے والا پاک افغان ٹریڈ اب پچاس کروڑ ڈالر پر پہنچ گیا
انضما م سے قبل طورخم بارڈرپر کسٹم کے پاس تمام اختیارات ہونے کے ساتھ دن میں ہزاروں گاڑیوںکو کلیئر کیا جاتاتھا آب کسٹم کے ساتھ ساتھ دیگر محکموں کو اختیار ملنے بارڈر 24-7 اور دیگر سہولیات کے ساتھ آب گاڑیوں کی تعداد تین سو تک پہنچ گیا ہے جس کی وجہ سے پاک افغان تجارت میں کمی آرہی ہے
پاک افغان تجارت میں کمی کی وجہ سے ملک میں موجود انڈسٹری جو ہر ساالانہ اربوں روپے کی ایکسپورٹ کررہی تھی آب بارڈر پر کام کی سست روی کی کے وجہ سے ایکسپورٹ کے ساتھ ساتھ ٹرانزٹ میں بہت کمی آئی
ذرائع کے مطابق طورخم کراچی پورٹ کے بعد کبھی دوسرے نمبر پر ہوا کرتا تھا جہاں ریونیو جمع کرنے کا ریکارڈ ہوتا تھا اور ٹرانسپورٹروں سمیت کاروباری لوگوں کا کاروبار بھی عروج پر تھا طورخم کے راستے درآمدات اور برآمدات کے لئے صرف چند گھنٹے مختص تھے لیکن حکام دیانت داری سے کام کیا کرتے تھے لیکن اب چوبیس گھنٹے طورخم بارڈر کاروبار کی غرض سے کھولنے کے باوجود متعین شدہ اہداف کبھی پورے نہیں ہوتے
پہلے جب صرف پولیٹیکل انتظامیہ اور کسٹم کے چند آفسران اور سسٹم مینول تھا تو دونوں طرف سے تین ہزار کے لگ بھگ گاڑیاںتین ہزات تک گاڑیاں کلیئر ہوتی تھیجس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کی محاصل موصول ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کا روزگار تیزی سے چل رہا تھا
آب طورخم بارڈر کسٹم حکام کی جانب سیوی باک سسٹم نصب کرنے کے ساتھ ساتھ کسٹم کے اندر کئی نئے شعبے قائم کئے گئے ہیں اور مبینہ طور پر سٹاف میں بھی پہلے کی نسبت زیادہ اضافہ کیا گیا
طورخم حکام کے مطابق برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں اضافہ ہوا ہے جس سے روزانہ پانچ سے دس کروڑ روپے کی ریونیو جمع ہوتی ہے لیکن اس کے مقابلے میں پاکستانی اشیا کی برآمد بہت کم ہوئی ہیں جن میں سیمنٹ، معمولی پرچون اور تازہ پھل میں لیمو,کیلا, امرود اور املوک افغانستان جاتے ہیں جو کہ بہت کم ہے
ذرائع کے مطابق برآمدات کے حوالے سے سخت پالیسی اور طورخم میں کسٹم کے علاوہ بارڈر منیجمنٹ کی جانب سے مختلف مقامات پر روکاوٹوںکی وجہ سے برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے متعلقہ تمام لوگ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے
دوسری جانب پرچون کی گاڑیوں کی تعداد میں بھی آہستہ آہستہ کمی آرہی ہے جس کی بنیادی وجہ ایکسپورٹ سکینر بتایا جاتا ہے جبکہ افغانستان سے تازہ پھل جیسے انار، انگور اورسیب وغیرہ جبکہ پیاز، ٹماٹر، خشک میوہ جات، چمڑا اور کاپر اور کوئلہ وغیرہ بڑی مقدار میں آتے ہیں جس کا دونوں ممالک اور ان کے تاجروں کا فائدہ ہو رہا ہے
طورخم کی رہائشیوں کے مطابق دنیا میں جہاں بھی ایسے تجارتی مراکز موجود ہوں وہاں پر مقامی لوگوں کو کاروبار کرنے کو ترجھ دی جاتھی ہے مگر یہاں پر زمین کے مالک مقامی لوگوں کو لیبر میں تبدیل کردیا گیا جو انتہائی ناانصافی ہے حکومت کو چاہیئے کہ وہ طورخم بارڈر میںمقامی لوگوں کے روزگار کو قانونی تحفظ فراہم کریں
ذرائع کے مطابق طورخم کے راستے مختلف اشیاء کی سمگلنگ ہونے کی وجہ سے نہ صرف قومی خزانے کو اربوں روپے نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ،کسٹم حکام کی جانب سے مختلف اوقات میں بری مقدار میں کپڑا ،سونا اور غیر ملکی کرنسی کا سمگلنگ کی کوشش ناکام بنایا گیا ہے
طورخم بارڈر پر امپورٹ گاڑیوں اور افغانستان سے خالی کینٹنرز کیلئے لگایا گیا سیکنرز کے باوجود سمگلنگ سامان مارکیٹ تک پہنچنا ان اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے
ذرائع نے برآمدات کی کمی کے حوالے سے بتایا کہ چونکہ طورخم میں ٹرمینل پر کام ہو رہا ہے اس لئے طورخم میں گاڑیوں کے لئے جگہ کم پڑ گئی ہے اور اس کی وجہ سے راستوں میں گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آرہی ہیں جس سے ٹریفک کا مسئلہ بھی بن رہا ہے
طورخم کسٹم پر نصب جدید سسٹم پر سٹاف کا عبور نہ ہونے کی وجہ سے بھی گاڑیوں کلیئیر کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہاں پر موجود سٹاف کی کیپسٹی بلدنگ کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ سسٹم پر عبور حاصل کرنے کے بعد بارڈر پر موجود گاڑیوں کی رش کوکم کرنے میں مدد گار ثابت ہونگے