عدالت نے خیبر پختونخوا میں گھریلو صارفین کو گیس کی عدم فراہمی پر متعلقہ محکموں سے 15 روز میں جواب طلب کرلیا

 

خیبرپختونخوا میں گھریلو صارفین اور سی این جی اسٹیشنوں کو گیس سپلائی کی بندش اور کم پریشر کیخلاف ڈائر رٹ پرپشاور ہائیکورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کرکے 15روز کے اندر جواب طلب کرلی۔

یہ احکامات جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ خان نے عباس خان سنگین ایڈوکیٹ کیجانب سے دائررٹ پر جاری کئے۔ کیس پر سماعت شروع ہوئی تودرخواست گزاروکیل عباس خان سنگین نے عدالت کو بتایا کہ گیس سپلائی کی معطلی صوبے کے غریب عوام کیساتھ ناانصافی ہے۔

خیبرپختونخوا ضرورت سے زیادہ قدرتی گیس پیدا کررہاہے اورآئین کے آرٹیکل 158کے تحت پہلی ترجیح اس علاقے یا صوبے کودی جائیگی جہاں گیس پیدا ہوتی ہے لیکن سی این جی فلنگ اسٹشنوں کو گیس بندش اورگھریلو صارفین کیلئے گیس سپلائی معطل کرنا یہاں کے لوگوں کیساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے حالانکہ گیس کے بل بھاری ٹیکس سمیت بھیج دیئے جاتے ہیں۔

رٹ میں وکیل عباس خان سنگین نے موقف اپنایا ہے کہ گیس لوڈشیڈنگ سے نہ صرف صوبے کے عوام کی زندگی متاثرہورہی ہے بلکہ گھروں میں خواتین کو امورخانہ داری کی انجام دہی اور بچوں کو تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے اور مساجد میں گرم پانی کیوجہ سے نمازیوں کوشدید مشکلات کا سامنا ہے۔اس طرح گیس کی فراہمی یقینی نہ بناکر لوگوں کو آئینی حق سے محروم رکھاجارہاہے۔

پشاور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اعجازافضل خان اور مظہرعالم خان کا فیصلہ موجود ہے جسکے تحت جن علاقوں میں گیس پیدا ہوتی ہے ان علاقوں کو گیس معطل نہیں کی جائیگی اور احکامات عملدرامد نہ کرنا توہین عدالت کے زمرے میں ائیگا۔ رٹ میں کہاگیا ہے کہ اخبارات میں آئے روزگیس لوڈشیڈنگ کی خبریں شائع ہوتی ہیں لیکن متعلقہ ادارے اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔

رٹ میں ہائیکورٹ سے متعلقہ اداروں کو گھریلو صارفین اورفلنگ اسٹیشنوں فی الفور گیس معطلی سے روکنے اور اسکی بلاتعطل فراہمی یقینی بنانے کیلئے احکامات دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر سیکرٹری انرجی اینڈ پاورڈیپارٹمنٹ، چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا، چیئرمین اوگرا، سوئی ناردرن گیس پرائیویٹ لمیٹڈکو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب مانگ لیا اور قرار دیا کہ اگر جواب داخل نہ کیا گیا تو درخواست میں مانگی گئی انٹیرم ریلیف دی جائیگی جبکہ کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔

You might also like
کمنٹ کریں

Your email address will not be published.