سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ ریجنل سٹڈیز(سی ایس آر ایس) کابل اور انسٹیٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز(آئی آر ایس) پشاور کے اشتراک تعان سے 19 جون کو افغانستان کے دارالخلافہ کابل کے انٹر کنٹینینٹل ہوٹل میں ایک روزہ طویل سیمینار زیر عنوان "افغانستان اور پڑوسی ممالک کے مستقبل کے تعلقات” پر منعقد ہوا آئی آر ایس پشاور کے چئیرمین ڈاکٹر اقبال خلیل کی زیر قیادت تقریبا 60 رکنی وفد دورہ کابل میں شریک تھا جس میں تاجر اور کاروباری افراد، علما اور سکالرز، ڈاکٹرز اور ٹیچرز، طلبا اور صحافی شریک تھے
امارت اسلامی کے ڈپٹی وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی، صنعت و تجارت کے وزیر حاجی نورالدین عزیزی، وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد، وزارت افغان مہاجرین کے مشیر قاری محمود شاہ، ڈاکٹر شاہ رخ راوفی و دیگر نے سیمینار کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان اور ایران کے ممنون و مشکور ہیں جنہوں نے افغانستان پر سویت یونین کے حملے اور قبضے کے دوران کٹھن، مشکل اور تکلیف دہ حالات میں انصار مدینہ کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے سرحدات افغان مہاجرین کے لئے کھول دئے اور کئی میلین افغانوں کو اپنے ممالک میں پناہ اور رہائش دیکر ناقابل فراموش احسان کیا
امارت اسلامی افغانستان کی کابینہ اور سی ایس آر ایس کابل کے ذمہ داران نے کہا کہ ایک دفعہ سویت یونین اور دوسری مرتبہ امریکہ بشمول نیٹو ممالک کے افغانستان پر حملہ آور اور قابض ہونے کے وقت غیور اور جذبہ جہاد سے سرشار افغان عوام اور مجاہدین نے نہ صرف اپنے ملک کی آزادی اور خودمختاری کا تحفظ کیا بلکہ بہت بڑی قربانی دیکر آزادی حاصل کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پڑوسی مسلمان ممالک جیسے پاکستان اور ایران کو بھی بیرونی فورسز کی جارحیت سے محفوظ رکھا ستانکزئی نے کہا کہ افغانوں کی بیش بہا قربانیوں اور لازوال جہاد ہی کی بدولت ایران اور پاکستان کے لوگ پرامن زندگی گزار رہے ہیں
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے افغان مقررین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان نے چار میلین سے زیادہ بے یار و مددگار افغان مہاجرین کو نہ صرف ہر جگہ آزادانہ طور پر رہنے کی جگہ دی بلکہ افغان مہاجرین نے پاکستان کو دوسرا گھر سمجھتے ہوئے وہاں کاروبار بھی کیا اور کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کیا جس پر وہ ریاست پاکستان اور پاکستانی عوام کے ممنون و مشکور ہیں تاہم انہوں نے یہ شکایت ضرور کی کہ امارت اسلامی کی حکومت کے قیام کے بعد سرحدی گزرگاہوں پر افغان شہریوں کو تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،ان کو ویزوں کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں اور بارڈر پر افغانوں کے ساتھ رویہ نامناسب ہے
عباس ستانکزئی و دیگر نے کہا کہ امارت اسلامی کی خواہش ہے کہ سرمایہ کار آکر افغانستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کریں،افغان حکومت تعلیم،صحت،سیاحت اور تجارت سمیت مختلف شعبوں کو پڑوسی ممالک اور دنیا کے دیگر ممالک کے باہمی اشتراک اور تعان سے ترقی دینے کی خواہاں ہے جنگ اور لڑائی کا دور گزر گیا اب افغانستان کی تعمیر نو، ترقی اور استحکام کے لئے پڑوسی ممالک ودیگر تعان کریں اور سب سے زیادہ وہ پاکستان اور ایران سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس مرحلے پر بھی آگے بڑھ کر ہر محاذ پر افغان حکومت کی مدد کریں تاکہ یہاں بھی ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھ سکے
سیمینار سے آئی آر ایس پشاور کے چئیرمین ڈاکٹر اقبال خلیل،جماعت اسلامی کے سینئر رہنما اور افغان امور کے ماہر شبیر احمد خان اور مولانا ڈاکٹر محمد اسماعیل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آزاد اور خود مختار افغانستان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جہاد افغانستان دراصل دفاع پاکستان کے لئے بھی تھا اور نہتے اور بے سروسامانی کے ساتھ افغان مجاہدین نے گزشتہ چالیس سالوں کے دوران دنیا کی دو سپر پاورز کو شکست دیکر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے جس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے
انہوں نے علامہ اقبال کے اشعار کے حوالے سے کہا کہ افغانستان ایشیا اور اس خطے میں دل کی حیثیت رکھتا ہے اگر اس دل میں فساد ہوگا تو پورا خطہ بے چین اور بے سکون ہوگا اس لئے یہاں امن ضروری ہے اور آج وہ دیکھ رہے ہیں کہ پورے افغانستان پر بلا شرکت غیرے امارت اسلامی کی حکومت قائم ہے،یہاں امن و سکون ہے اور کسی کو امارت اسلامی کی طرف سے کوئی تکلیف نہیں
ڈاکٹر اقبال خلیل نے سابق افغان صدر اشرف غنی کی بھی خراج تحسین پیش کی جنہوں نے خون خرابے اور فساد کے بغیر اقتدار چھوڑ دیا اور کابل کو جنگ و جدل سے بچا لیا پاکستانی وفد کے مقررین نے طورخم اور چمن و غیرہ بارڈرز پر افغانوں کے لئے ویزوں کی فراہمی میں آسانی اور سہولیات فراہم کرنے اور بارڈرز پر آنے جانے میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کرنے پر زور دیا اور تجویز پیش کی کہ پاک افغان حکومتیں تجارت اور سیاحت کو ملکر فروع دیں اور ایک دوسرے کے وسائل سے ملکر استفادہ کریں دونوں ممالک تجارت کے شعبے کو ترقی دیکر تاجروں کا اعتماد بحال کرتے ہوئے ان کو سرمایہ کاری کے لئے سہولیات فراہم کریں تاکہ دونوں طرف غربت اور بے روزگاری میں کمی کی جاسکے اور دونوں ممالک کے مابین قانونی اور جائز درآمدات اور برآمدات پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہئے
بعدازاں افغان وزیر اعظم اور حزب اسلامی کے امیر انجینئر گلبدین حکمتیار نے بھی اپنی رہائش گاہ پر پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران اس اندیشے کا برملا اظہار کیا کہ پاکستان کو جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کو دہرانا نہیں چاہئے اور ایک ایسی معقول اور مربوط افغان پالیسی اپنائیں جس کے نتیجے میں بداعتمادی اور غلط فہمیاں پیدا نہ ہو اور اسلام آباد اور کابل کے مابین فاصلے بڑھنے نہ پائیں حکمتیار کے نزدیک اسلام آباد اور کابل میں فاصلے پیدا ہونے کے نتیجے میں دہلی اور کابل ایکدوسرے کے قریب ہو سکتے ہیں
انہوں نے کہا کہ طورخم سمیت دیگر سرحدی پوائنٹس پر پاکستانی حکومت افغانوں کے آنے جانے میں آسانی اور سہولیات فراہم کریں اور توہین آمیز اقدامات سے گریز کریں جس کے نتیجے میں افغانوں کے اندر نفرت پیدا ہو انہوں نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار امارت اسلامی کی صورت میں ایسی افغان حکومت قائم ہوئی ہے جس کے پاکستان کے ساتھ بہت ہی اچھے تعلقات ہیں اور پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سنٹرل ایشیا کے ممالک تک اپنی تجارت بڑھا سکتا ہے لیکن اس کے لئے پرامن اور مستحکم افغانستان اور باہمی اعتماد اور تعان ضروری ہے تاکہ دونوں ممالک زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کر سکے
انجینئر گلبدین حکمتیار نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان کے اندر کوئی ترقیاتی کام نہیں کئے ہیں بلکہ یہاں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ادارے برباد کئے ہیں امریکہ کے تسلط کے وقت صرف ڈیڑھ لاکھ افراد محدود تنخواہوں پر کام کرکے گزر بسر کرتے تھے اور وہی چند لاکھ لوگ امریکہ کے جانے پر ناخوش ہونگے باقی افغان عوام کی اکثریت امارت اسلامی کی حکومت قائم ہونے کے بعد خوش اور پرامید ہیں تاہم حکمتیار نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کو مطمئن اور افغان حکومت کو تسلیم کروانے کے لئے ضروری ہے کہ جلد از جلد ایک اساسی قانون اور آئین مشاورت سے بنائیں،ایک منتخب پارلیمنٹ ہو تاکہ وہ افغانستان کے مستقبل کے لئے قانون سازی کریں اور پالیسیاں ترتیب دیں
انہوں نے امارت اسلامی کو مشورہ دیا کہ افغانستان کی آزادانہ اور خودمختار حیثیت اور افغان عوام کے مفادات کو مدنظر اور برقرار رکھتے ہوئے دنیا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائیں اور کسی مخصوص بلاک کی طرف جھکا سے گریز کریں جس کے نتیجے میں افغانوں کو ایک نئی مشکل کا سامنا کرنا پڑے۔سیمینار کی دوسری نشست کے موقع پر مختلف ورکنگ گروپس نے پاک افغان تعلقات کی بہتری، تجارت، صنعت، تعلیم و صحت، سیاحت اور میڈیا کے شعبوں میں قربت اور استفادہ کے لئے مختلف مکالے اور تجاویز پیش کیں