پاکستان میں کورونا کی اس تیسری لہر نے تو بہت سے انسانوں کو نگل لیا اور اس کی شدت میں کبھی بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے اور کبھی احتیاطی تدابیر اور سٹنیڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر(ایس اوپی) پر عمل درآمد کرنے سے کورونا وائرس کی شدت کا گراف تیزی سے نیچے آجاتا ہے مگر کورونا وائرس کی پہلی لہر اس حوالے سے خطرناک تھی کہ یہاں لوگ اس سے واقف نہیں تھے اور یہ وائرس لوگوں کے لئے بلکل ایک نئی چیز تھی
ایک سال پہلے رمضان المبارک کا مہینہ تھا پاک افغان طورخم بارڈر پر لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا تھا کورونا کی وباء پھوٹ پڑی تھی لوگ کشمکش میں مبتلا تھے سمجھ نہیں رہے تھے کہ واقعی یہ وباء ہے بھی کہ نہیں اور کہیں یہ کوئی بین الاقوامی ڈرامہ تو نہیں اور ویسے بھی آجکل پشتون معاشرے کے لوگ ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو طورخم بارڈر پر حالات کو سنبھال کر رکھنا سول انتظامیہ، ہیلتھ سٹاف، سیکیورٹی فورسز اور پولیس کے لئے بہت بڑا چیلنج تھا ایسے گھمبیر اور پریشان کن ماحول میں ایک 42 سال کا سنجیدہ نوجوان طورخم بارڈر پر دکھائی دیا یہ نوجوان کوئی عام آدمی نہیں تھا بلکہ لنڈی کوتل سب ڈیویژن کا ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر شمس الاسلام تھا جن کی کالی داڑھی، سر کے سیاہ بال اور کپڑے ہر وقت گرد و غبار سے اٹکے ہوئے نظر آتے تھے
رمضان کے مہینے کا اپنا بھی ایک پریشر ہوتا ہے اور پھر طورخم میں تو سورج بلکل پوری موج مستی دکھاتا ہوا آگ برسا رہا ہوتا ہے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر شمس الاسلام طورخم بارڈر پر کسی ائیر کنڈیشن کمرے نہیں بیٹھا کرتے تھے بلکہ زیرو پوائنٹ سے نادرا چیک پوائنٹ اور پھر وہاں سے شہید موڑ ٹول پلازے تک مسلسل گھومتے پھرتے نظر آئے ایک طرف اپنے پاکستانیوں کو اور دوسری طرف افغانوں کو سمجھاتے تھے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے سماجی فاصلہ رکھیں،ماسک پہن کر حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایس او پی پر عملدرآمد کریں تاکہ آپ لوگ اس وباء سے محفوظ رہ سکے صرف یہی ڈیوٹی نہیں کرتے تھے بلکہ طورخم بارڈر کے راستے آنے والے پاکستانیوں کو ترتیب سے مختلف گاڑیوں میں بیٹھا کر پولیس اور ایف سی کی کھڑی نگرانی میں ضلع کے اندر قائم مختلف قرنطینہ سنٹرز میں بھیجواتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ طورخم بارڈر پر آنے جانے والے تمام افراد کی لسٹ مرتب کرواکر صوبائی حکومت کو بھیجواتے تھے
یقینآ ایمانداری اور فرض شناسی سے کام کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس میں انسان مطمئن ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی میں نے مرحوم شمس الاسلام صاحب کو دیکھا وہ ہنستے ہوئے ملتے تھے ہشاش بشاش ہوا کرتے تھے اور اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر معلومات شئیر کیا کرتے تھے طورخم بارڈر پر پہلی کورونا لہر کے دوران تمام تر مسافروں کے لئے افطار پارٹیوں کا اہتمام وہ خود کیا کرتے تھے ہاں اگر ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر مرحوم شمس الاسلام کا ذکر خیر کرتے ہوئے ان کے ماتحت تحصیلدار عصمت اللہ وزیر کا ذکر نہ کروں تو یہ زیادتی ہوگی تحصیلدار عصمت اللہ وزیر نے ایک دوست اور فرض شناس آفیسر کے طور پر شمس الاسلام کا بھر پور ساتھ دیا تھا اور دونوں ہر جگہ شانہ بشانہ دکھائی دیتے تھے چونکہ اس وقت حالات کچھ ایسے تھے یا پھر بڑوں کی زیادتی تھی کہ سابق تحصیلدار کے پاس اپنی سرکاری گاڑی نہیں تھی اس لئے وہ مرحوم ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر شمس الاسلام کے ساتھ ان کی نئی سرکاری گاڑی میں ہی گھوما کرتے رہے
لنڈی کوتل میں کھیلوں کے میدان اور مختلف بازار اگر لوگوں سے خالی کر دئے گئے تھے، جس کی بدولت کورونا کی پہلی لہر پر قابو پایا گیا،تو اس میں سابق ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر مرحوم شمس الاسلام اور عصمت اللہ وزیر کا مخلصانہ اور جاندار کردار تھا جو میگا فون ہاتھوں میں لئے ہر جگہ اعلانات کرکے لوگوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ترغیب دیتے تھے لیکن کبھی کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ مرحوم کی زندگی میں ایک سال پہلے صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے طورخم بارڈر پر شب و روز ایمانداری اور فرض شناسی سے ڈیوٹی سرانجام دینے پر شمس الاسلام کو بہترین آفیسر قرار دیا تھا اور توصیفی اور تعریفی سرٹیفیکیٹس سے بھی نوازا تھا
شمس الاسلام مرحوم درگئی مالاکنڈ کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے وہ آفیسر ہوتے ہوئے بھی اپنے بڑے بھائی پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام سے ڈرتے تھے اور ان کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے شمس الاسلام نے ایف سی آر اور پولیٹیکل انتظامیہ کے وقت میں بطور تحصیلدار طورخم جو جاندار کردار بہادری سے ادا کیا تھا وہ ناقابل فراموش ہے شمس الاسلام مرحوم انتہائی باصلاحیت اور باکمال انسان اور آفیسر تھے لیکن کبھی اپنے کسی ماتحت کے ساتھ کوئی ظلم اور زیادتی نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی کو حقیر نظر سے دیکھا وہ سسٹم کو سمجھنے اور چلانے والے آفیسر تھے جو ریاکاری سے بلکل پاک تھے وہ لنڈی کوتل میں اپنی لیول کے پہلے آفیسر تھے جنہوں نے شجر کاری مہم کو کامیابی سے چلا کر اس کو عوامی بنا دیا تھا اور دور دراز کے علاقوں میں شجر کاری مہم چلاکر لوگوں کو بڑی مقدار میں پودے کاشت کرنے پر راغب کیا تھا
خدا ترس لوگوں کی دنیا میں کمی نہیں اور انہی خدا ترس اور ہمدرد لوگوں کی بدولت دنیا آباد ہے شمس الاسلام نے کئی مواقع پر بتایا کہ اگر کوئی زیادہ غریب ہو تو ان کے پاس بھیجیں اور کئی مرتبہ انہوں نے اپنے صدقات اور خیرات ہمارے ہاتھوں غریب لوگوں تک پہنچائیں ہیں شمس الاسلام کے ایک بیچ فیلو اور قریبی دوست سابق ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر خالد خان کا ذکر خیر کئے بغیر میری یہ تحریر ادھوری ہوگی موجودہ اسٹنٹ ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے خالد خان شمس الاسلام کے بااعتماد دوست تھے دونوں جب ملتے یا ایک ساتھ دکھائی دیتے تو ان کی محفل ہنسی خوشی اور طنز و مزاح سے بھر پور ہوا کرتی تھی شمس الاسلام مرحوم کی طرح خالد خان بھی اپنی ذمہ داریوں سے باخبر اور سمجھدار آفیسر ہیں اور دنیا پرست انسان نہیں سوچتا ہوں شمس الاسلام کی رحلت کے بعد ان کے پورے خاندان پر غم کا ایک پہاڑ تو ٹوٹا ہی ہے، ان کا بیٹا عبدالرحمن، دوسرا بیٹا اور بیٹی عائشہ یتم ہوگئے تینوں اپنے باپ کے لاڈلے تھے بس یہی اللہ کو منظور تھا کہ ان کے بیٹے یتیم چھوڑ دئے گئے لیکن مقام شکر ہے کہ شمس بھائی کے بھائی جان پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام اور صدرالاسلام ان کے بیٹوں کی بہترین تربیت اور پرورش کرینگے اور ان کو کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دینگے لیکن باپ تو باپ ہوتا ہے وہ کمی اور خلاء لمبے عرصے تک محسوس کی جائیگی
لیکن ان کے قریب ترین دوست خالد خان اپنے آپ کو کتنا تنہا محسوس کرتے ہونگے بس یہی اس مختصر زندگی کی حقیقت ہے کہ یہ فانی ہے اور ہم سب کو اس سے کوچ کر جانا ہے اس بات پر اطمینان ہوا کہ 18 مئی کو جب شمس الاسلام کا انتقال ہوا تو صبح اپنے دفاتر میں آتے ہی ڈپٹی کمشنر خالد محمود نے مبینہ طور پر حکومت اور بالائی حکام کو ایک خط تحریر کیا جس میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ چونکہ شمس الاسلام نے بطور ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر لنڈی کوتل اور پشاور میں کورونا وباء کی پہلی، دوسری اور تیسری لہر میں بڑا جاندار، نمایاں اور فرنٹ لائن پر کردار ادا کرکے خود اس کے شکار ہو گئے اور 45 دنوں تک حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کورونا سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے اس لئے حکومت ان کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو شہید پیکیج سے نوازے شمس بھائی کے ایک اور قریبی دوست اور ہم جماعت صحافی لحاظ علی سے معلومات کرنے پر معلوم ہوا کہ حکومت نے مرحوم کو قومی سول اعزاز کے لئے نامزد کر دیا ہے اور ان کا نام شہید پیکیج میں شامل کر دیا ہے مرحوم کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر انتہائی تیزی کے ساتھ وائرل ہوگئی ہر کسی نے اپنی پوسٹ میں ان کو دوست اور بھائی کے نام سے یاد کرتے ہوئے ان کے لئے دعائے مغفرت کی شمس بھائی کی نماز جنازہ درگئی مالاکنڈ میں ان کے آبائی گاؤں میں ادا کی گئی نماز جنازہ میں صوبے کی بیوروکریسی کے سیکریٹریز دیگر سینئر اور جونئیر آفسران،سابق پولیٹیکل انتظامیہ کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ متعلقین، سابق خاصہ دار فورس کے اہلکاروں، پولیس آفیسرز، شعبہ تعلیم و تعلم سے تعلق رکھنے والے احباب، سیاسی جماعتوں کے قائدین، میڈیا کے نمائندوں اور عام لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی ملاکنڈ لیوی فورس کے چاک و چوبند دستے نے مرحوم کی نعش کو گارڈ آف آنر اور سلامی دی بیوروکریٹس نے مرحوم کی تابوت پر پھولوں کے ہار رکھ کر ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعائیں مانگیں اور اس طرح ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر شمس الاسلام شہید پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دئے گئے اللہ سے دعا ہے کہ ان کے سارے نیک اعمال کی بدولت ان کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطاء فرمائیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔