قبائلی علاقوں میں بلدیاتی انتخابات ناگزیر!

 

پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان ہو چکا ہے جو دو مراحل میں ہونگے پہلے مرحلے میں کنٹونمنٹ بورڈز اور دوسرے مرحلے میں ویلیج اور نیبرینگ کونسل کے انتخابات ہونگے دنیا میں جہاں کہیں ترقی ہوئی ہے وہاں آپ کو بلدیاتی ادارے فعال نظر آئینگے

مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں نام نہاد جمہوریت پسند قوتیں اور منتخب لوگ بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں ڈال دیتے ہیں اور اگر پاکستان میں کبھی بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں تو وہ فوجی آمروں کے دور حکومت میں ہوئے ہیں ملک کو نئی اور باصلاحیت سیاسی قیادت یا تو بلدیاتی اداروں میں خدمات انجام دینے والوں سے ملتی ہے یا پھر کالجز اور یونیورسٹیوں سے ملتی ہیں مگر بدقسمتی سے تعلیمی اداروں کے اندر یونین سازی وغیرہ پر پابندی ہے اور بلدیاتی انتخابات بھی تسلسل کے ساتھ نہیں ہوتے ہیں

پارلیمنٹ کے اندر موجود منتخب عوامی نمائندے سب سے بڑھ کر بلدیاتی انتخابات کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے اختیارات اور فنڈز میں کمی ہو سکے ظاہر ہے جب بلدیاتی انتخابات کے بعد بلدیاتی ادارے بن کر اپنا کام شروع کرینگے تو تعمیر و ترقی سمیت تمام سوشل کام ان کے ذمے ہونگے اور فنڈز بھی ان کو ملیں گے تو پھر ایم پی اے، ایم این اے اور سینیٹر پارلیمنٹ کے اندر قانون سازی تک محدود ہونگے اور علاقے کے لوگ کسی ترقیاتی سکیم اور پراجیکٹ کے لئے ان منتخب نمائندوں کی منت سماجت نہیں کرینگے بلکہ بلدیاتی اداروں کے اندر گراس روٹ لیول پر ان کے کام ہونگے مثلاً ایک ویلیج کونسل کے چئیرمین کے ہاتھ پر سالانہ ایک کروڑ روپے خرچ ہونگے جو کہ بڑی بات ہے

مگر یہاں بھی ہمارے لنڈی کوتل کے ساتھ الیکشن کمیشن نے زیادتی کی ہے وہ یہ کہ بعض ویلیج کونسل کی آبادی دس ہزار سے بھی بڑھ کر ہے جبکہ بعض کی آبادی محض چند ہزار ہیں آبادی کے لحاظ سے منصفانہ تقسیم نہیں کی گئی ہے اسی طرح پولنگ اسٹیشن بھی ایک دوسرے سے دور رکھے گئے ہیں جس میں ایک گاؤں کے ووٹرز دوسرے گاؤں میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے جائینگے جس سے ویلیج کونسل کی بنیادی ترتیب خراب کر دی گئی ہے اور یہ سازش عام انتخابات کے موقع پر بھی کی گئی تھی

اس میں مسئلہ یہ ہے کہ قبائلی خواتین اپنے گھر کے قریب پولنگ اسٹیشن میں ووٹ ڈالنے کے لئے تو جا سکتی ہیں لیکن گھر اور گاؤں سے دور جاکر ووٹ ڈالنا ان کے لئے مشکل بھی ہوتا ہے اور گھر کے مرد حضرات اجازت بھی نہیں دیتے ہیں بنیادی طور پر یہ کام سیاسی جماعتوں کے قائدین کا ہے کہ وہ الیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن کے ذمہ داران سے ملکر یہ تمام خدشات پیش کریں اور ان پیچیدگیوں کو دور کریں

کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات اگر قبائلی علاقوں کے بڑے بازاروں میں ہو سکے تو اچھی بات ہوگی تاکہ بازار یونینوں کی شکل میں کرپٹ عناصر سے نجات حاصل کی جا سکے اور قبائلی علاقوں کے بازاروں میں بھی تعمیر و ترقی، صفائی اور پارکنگ کے انتظامات ہو سکے بحر حال یہ کام اب حکومت کا ہے کہ وہ قبائلی عوام پر رحم کرتی ہے کہ نہیں اس بار بلدیاتی انتخابات ہونگے تو سربراہ چیئرمین کہلائیگا ویلیج کونسل میں چیئرمین، وائس چیئرمین، کسان، خاتون، اقلیتی نمائندہ اور یوتھ کا ایک ممبر اس کا حصہ ہونگے یہاں قبائلی علاقوں میں تو خواتین اور اقلیتی نمائندے ہر ویلیج کونسل میں بمشکل ملینگے پھر یہی چیئرمین تحصیل کونسل کے ممبران ہونگے اور ان کاچیئرمین عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہوگا

لنڈی کوتل میں کل 31 ویلیج کونسلز ہیں جبکہ خوگہ خیل شینواری کے چار علاقے نیبرہوڈ کونسل میں شامل کر دئے گئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لنڈی کوتل بازار اور کینٹ ایریا کی حدود میں آتے ہیں بلدیاتی نظام اور انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو کئی چیزوں پر اعتراضات ہیں لیکن ابھی تک ان کے خدشات دور نہیں کئے گئے ہیں اور جو ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن ضلع کے اندر اپنے دفاتر کھولنے کی استطاعت نہیں رکھتا وہ حلقہ بندیوں پر اعتراضات کو کیسے دور کر سکتا ہے

بلدیاتی ادارے جمہوریت کے لئے ایک نرسری کا کردار ادا کرتے ہیں اور انہی اداروں میں کام کرکے سیاسی کارکن اور عام تعلیم یافتہ افراد سیاسی شعور، نظم و ضبط اور اداروں کو چلانے کی صلاحیت حاصل کرتے ہیں اور یہاں سے ان کی سیاسی اور تنظیمی نشوونما کے سفر کا آغاز ہوتا ہے اور جو افراد یہاں سیکھتے ہیں وہ مستقبل کے سیاسی سفر میں بھی کامیاب ہوتے ہیں اور گراس روٹ لیول پر جو خدمت کرکے کارکردگی دکھاتے ہیں وہ قومی سطح پر بھی اچھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوتے ہیں

ترکی کے موجود صدر طیب اردوان نے سیاسی سفر کا آغاز ایک مئیر کی پوسٹ پر کام کرنے سے کیا تھا بحر حال جس طرح عام انتخابات کے موقع پر نظم و ضبط اور پرامن ہونے کا مظاہرہ کیا تھا اگر اسی طرح لوکل باڈیز الیکشن میں بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، ایک دوسرے کو برداشت کیا اور اچھی قیادت کو خدمت کا موقع دیکر آگے لے آئیں تو یہ ان کے بہتر مستقبل کے لئے فائدہ مند ہوگا یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ویلیج کونسل کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہونگے جوکہ تحصیل کونسل کے چیئرمین کا انتخاب جماعتی بنیادوں پر عوام کے ووٹوں سے براہ راست ہوگا۔

You might also like
کمنٹ کریں

Your email address will not be published.