قبائل تحفظ مومنٹ کے قائدین کا کہنا ہے کہ 1947 میں جب پاکستان آزاد ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آیا تو قبائلی عوام نے مملکت خداداد کے ساتھ الحاق کیا اور وہ بھی اس شرط پر کہ قبائلی علاقوں کا آزادانہ تشخص برقرار رکھا جائیگا جس میں ان کا رواج و دستور، کلچر اور روایات شامل ہیں ابوسفیان محسود اور ان کے دیگر ساتھیوں نے لنڈی کوتل پریس کلب میں بتایا کہ نواز شریف کے دور میں سرتاج عزیر کی سربراہی میں جو ریفارمز کمیٹی بنی تھی اس کے ایجنڈے میں انضمام کا نقطہ شامل نہیں تھا
بحر حال ان کا خیال تھا اور بہت وثوق سے کہہ رہے تھے کہ انضمام کی صورت میں قبائلی علاقوں کے اندر قدرتی وسائل اور معدنیات پر قبضہ کرنا مقصود ہے جس کی وہ اجازت نہیں دینگے انہوں نے کہا کہ شوکت ترین کی طرح بڑے بڑے سرمایہ دار قبائلی علاقوں کے اندر قدرتی وسائل پر قبضے اور اپنے کاروبار اور مفاد کے لئے استعمال میں لانے کے لئے سہولت کاروں کا کردار ادا کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ لر اور بر کے نعروں یا اس نعرے کو پیسوں کے زور پر کاونٹر کرنے والے مہروں سے قبائل تحفظ مومنٹ کا کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ قبائلستان کے نام سے قبائل کو الگ صوبہ دیا جائے جس کی اپنی قانون ساز لیجسلیچر ہو تاکہ قبائل کے منتخب نمائندے اپنی شاندار روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لئے قانون سازی کریں اور اپنے قدرتی وسائل اور معدنیات اپنی بہبود پر خرچ کر سکے
ابوسفیان محسود، سردار اضغر، افرسیاب آفریدی اور داود شاہ نے کہا کہ نواز دور حکومت میں عمران خان کبھی پارلیمنٹ میں نہیں آئے لیکن جب انضمام کا یکطرفہ اور ظالمانہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہو رہا تھا تو عمران خان اس دن تشریف لائے اور اس بل کی حمایت کی جس سے معلوم ہوا کہ انضمام کا فیصلہ کہیں اور سے مسلط کردیا گیا قبائل تحفظ مومنٹ کے مطابق پارلیمنٹ کے پاس قبائلی علاقوں کی حیثیت تبدیل کرنے کا اختیار نہیں تھا اور اتوار کے دن خیبر پختون خواہ اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلا کر انضمام مسلط کر دیا گیا جو کہ آئینی طور پر اور پارلیمانی روایات کے خلاف ہیں
انہوں نے سیفران کے وزیر جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ "انضمام”ریفارمز کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا
انہوں نے سپریم کورٹ سے میرٹ اور انصاف کی بنیاد پر فیصلہ دینے کی امید ظاہر کی تاہم یہ عندیہ بھی دیا کہ دیگر فورمز بھی موجود ہیں جہاں وہ قبائلی عوام کے حقوق اور الگ صوبے کی بات کرینگے اور اس بات کی نوید بھی سنائی کہ اگلے سال وہ اپنا صوبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے مگر یہ نہیں بتایا کہ کیسے۔
ضلع خیبر کی تینوں تحصیلوں میں جس شاندار طریقے سے جشن یوم آزادی کی تقریبات منعقد ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہیں 14 اگست کی شب آزادی کی خوشی میں سڑکوں پر کافی چہل پہل دیکھی، ہر طرف سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے نظر آئے اور طورخم اور خیبر سمیت باب خیبر پر نصف شب کو آتش بازی کے شاندار مظاہرے کئے گئے جن سے چھوٹے بڑے ہر عمر کے لوگ انتہائی محظوظ اور لطف اندوز ہوئے، لنڈی کوتل،
جمرود اور باڑہ کے ایس ایچ اوز نے ایک طرف جشن آزادی اپنے طور پر منانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو دوسری طرف ایس ایچ اوز سوالزر خان آفریدی، عشرت شینواری اور اکبر آفریدی نے اپنی تحصیلوں میں سیکیورٹی کے بہترین انتظامات کئے تھے دن کے وقت الخدمت فاونڈیشن سکول اور زین تاڑہ خیبر ہائی سکول میں جشن آزادی کے حوالے سے تقریبات منعقد ہوئیں جہاں طلبا نے قومی ترانہ، ملی نغمے اور خاکے پیش کئے ہائی سکول لنڈی کوتل اور بسم اللہ خان شینواری میموریل سپورٹس گرانڈز میں سپورٹس میلے منعقد ہوئے جہاں فٹ بال، رسی کشی اور مارشل آرٹس کے مقابلے پیش کئے گئے کھیلوں کے میدان نوجوانوں اور بوڑھوں سے کھچا کھچ بھرے تھے سول اور فوجی حکام نے کوشش کی کہ وہ ہر تقریب میں شامل ہو کر کم از کم حاضری تو لگائیں تاکہ کوئی ناراض نہ ہو زڑگئی
پاکستان کے چئیرمین شاکر آفریدی نے اس سال خیبر کے ایک پہاڑ پر پاکستان کا سب سے بڑا جھنڈا بنا کر پیش کر دیا جس کو میڈیا میں بڑی پذیرائی ملی شاکر آفریدی نے رات آتش بازی کا مظاہرہ کیا اور میوزک کا اہتمام کیا تھا جس سے لطف اندوز ہونے کے لئے ہزاروں نوجوان نصف شب تک موجود تھے غرض قبائلی علاقوں میں جس جوش و خروش کے ساتھ لوگوں نے یوم آزادی منایا وہ بے مثال ہے اس تمام روداد سے معلوم ہوتا ہے کہ قبائلی عوام پاکستان کی سرزمین سے والہانہ محبت رکھتے ہیں اس ملک کو اپنا ملک سمجھتے ہیں ان کی حب الوطنی پر وہ لوگ شک کرینگے جن کی اپنی حب الوطنی مشکوک ہوگی تاہم اس بات کی ضرورت ہے کہ مقتدر ادارے اور حکومت قبائلی عوام کو سینے سے لگا کر وسائل کے اندر رہتے ہوئے ان کو تمام بنیادی حقوق فراہم کریں،
یہاں تعمیر و ترقی کے بڑے بڑے منصوبے شروع کریں، تعلیم و صحت اور مواصلات کے شعبوں میں ہنگامی بنیادوں پر تیز ترین اور معیاری کام کریں تاکہ قبائلی عوام کا معیار زندگی تبدیل ہو سکے اور یہ بات نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ قبائلی عوام بہت تلخ تجربات اور مشاہدات سے گزر چکے ہیں اب ان کو کچھ دینا ہوگا لینے کی سوچ ترک کی جائے انضمام کے وقت این ایف سی ایوارڈ سمیت جتنے وعدے کئے گئے تھے وہ من و عن پورے کئے جائیں اور ٹھوس بنیادوں پر قابل رشک اقدامات اور کام کریں تاکہ قبائلی عوام تبدیلی محسوس کریں قبائلی عوام کے قدرتی وسائل ان ہی کی ترقی اور خوشحالی پر خرچ ہونگے تو کوئی اعتراض نہیں کریگا
یہاں سیاحت کو فروغ دینے اور سیاحوں کو سہولیات دینے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ کما سکے اور سیاح خوشی سے قبائلی علاقوں کے دورے کر سکے قبائلی علاقوں کے پہاڑوں پر بڑے پیمانے پر درخت کاشت کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے چھوٹے چھوٹے بارانی ڈیمز بنانا چاہئے جس سے پانی کی فراہمی بھی ہو سکے اور ماحول پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہو سکے اور اگر جنگلات کی کٹائی ہوتی ہے، لوگوں کو بے روزگار کیا جاتا ہے،وسائل اور روزگار کے مواقع ختم ہو، قبائل کے فنڈز اللوں تللوں پر خرچ ہو، یہاں کرپشن کا بازار گرم ہو، گھروں پر بلاجواز چھاپے مارے جاتے ہوں جس سے گھروں کا تقدس پامال ہو تو پھر ان مجبور اور غریب قبائل سے کسی خیر کی توقع رکھنا فضول ہے