طورخم بارڈر بندش کے نقصانات!

تحریر: سدھیراحمدآفریدی
گزشتہ پیر کے روز افغانستان کے بارڈر حکام نے اپنی اعلیٰ قیادت سے مبینہ مشاورت کے بعد پاک افغان طورخم بارڈر کو پیدل اور ٹرانسپورٹرز کی آمدورفت کے لئے بند کر دیا اور بلا اشتعال پاکستان کے ایوب نامی پہاڑی پوسٹ پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں پاکستان کا ایک سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوا پاکستان کی طرف سے جوابی کارروائی پر ان کی بندوقیں خاموش ہو گئیں فی الحال طورخم بارڈر ہر قسم کی آمدورفت کے لئے تو بند ہے تاہم صورتحال پرسکون ہے افغانستان کی طرف سے ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے طورخم بارڈر دوسرے روز بھی بند رہنے سے کس قسم کے نقصانات پیش ہونگے اس کا جائزہ لیتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ طورخم بارڈر کی بندش سے افغانستان کو ہر لحاظ سے نقصان ہوگا چونکہ افغانستان ایک تو لینڈ لاک ملک ہے،دوسرا دنیا نے افغانستان کی طالبان حکومت کو رسمی اور سفارتی سطح پر تسلیم نہیں کیا ہے اور صرف پاکستان واحد پڑوسی ملک ہے جس سے خوراکی سامان اور دوسری اشیاء کم خرچے پر اور قلیل وقت میں افغانستان کے ہر کونے تک باآسانی پہنچائی جا سکتی ہیں اس کے علاوہ کئی ملین افغان شہری اب بھی پاکستان کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں،ان کا علاج معالجہ یہاں ہوتا ہے اور ان کے ہزاروں طلباء پاکستان کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ پختونخوا کے مختلف شہروں میں تو افغانستان کے شہریوں نے کاروبار پر قبضہ کر رکھا ہے اور خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں جن کو حکومت اور پاکستانیوں کی طرف سے کسی قسم کی پریشانی درپیش نہیں اور پاکستانی ان تمام افغانوں کو اپنائیت دے چکے ہیں، ان کے ساتھ لین دین کرتے ہیں اور بھائیوں جیسے تعلقات استوار کئے ہیں اگر افغان حکومت ریاست پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کرتی ہے تو افغانستان مذید عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوگا اور پاکستان کے راستے ان کے ساتھ جو تجارت ہوتی ہے اس میں خلل پڑنے سے افغانستان کا بہت برا حال ہو سکتا ہے اس لئے سیاسی اور اخلاقی دانشمندی کا تقاضا ہے کہ افغانستان ہوش کے ناخن لیں، طورخم بارڈر کے راستے آنے جانے کے لئے پاکستان کے قوانین تسلیم کریں اور جو سرحد پار کرنے کے حوالے سے عالمی قوانین اور پروٹوکول ہیں ان کے آگے سر خم تسلیم کریں اسی میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے اور اگر بارڈر بند رہتا ہے ٹینشن اور غلط فہمیاں بڑھتی ہیں تو اس سے سب سے زیادہ افغانستان اور اس کے عوام متاثر ہونگے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ افغانستان کی سرحد دیگر سنٹرل اشیا کے ممالک اور ایران سے بھی ملتی ہے اور وہاں سے بھی ان کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں لیکن براستہ پاکستان جو کچھ ملتا ہے وہ بہت مفید اور آسان ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور پاکستانی عوام نے ہمیشہ افغان عوام کے ساتھ تعاون کیا ہے اور پاکستان کسی صورت افغان عوام کو ناراض نہیں کرنا چاہتا لیکن جو کچھ بھی ہوگا طے شدہ عالمی اصولو،قوانین اور خود پاکستانی آئین اور قانون کی روشنی میں ہوگا اور بارڈر پر آمدورفت کے حوالے سے افغانستان کے مروجہ قوانین کا بھی احترام کرنا ضروری ہے ایسے حالات میں اگر پاکستان نے طورخم سمیت دیگر سرحدی گزرگاہوں کو کھلا چھوڑ دیا کوئی روک ٹوک نہیں رہی تو پھر خدشہ ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گرد داخل ہو کر امن و امان کے مسائل پیدا کریں جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مختلف جنگوں کی وجہ سے افغانستان کی معاشرت، معاش اور انفراسٹرکچر سب کچھ تباہ ہو چکے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں جنگوں اور دہشت گردی کے براہ راست اثرات پاکستان پر بھی پڑے ہیں اور آج اگر پاکستان مشکلات سے دوچار ہے تو دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ افغانستان بھی حل کا راستہ اب یہی ہے کہ افغان حکومت آگے آکر ٹیبل ٹاکس شروع کریں اور بارڈر کھولنے کے لئے اپنے جائز اور اصولی مطالبات اگر ہوں تو وہ پیش کریں امید ہے پاکستان کی طرف سے بھی مثبت جواب ملیگا اس میں بھی شک نہیں کہ پاکستانی مصنوعات کے لئے سب سے بڑی منڈی افغانستان ہے اور اگر افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے ہیں بارڈر بند رہتا ہے تو تجارت متاثر ہوگی جس سے پاکستانی انڈسٹریز اور تجار متاثر ہونگے اور سرحدی گزرگاہ کی بندش سے دونوں طرف آباد قبائلی عوام سب سے پہلے متاثر ہونگے ان کا روزگار خراب ہوگا اور جب روزگار اور کاروبار خراب ہونگے تو اس سے مختلف قسم کے سماجی اور معاشی مسائل جنم لینگے یقیناً اگر افغانستان میں امن، ادارے مضبوط اور لوگ خوشحال ہونگے تو پھر پاکستان کے لئے ممکن ہے کہ براستہ افغانستان سنٹرل اشیا کے ممالک کی منڈیوں تک رسائی حاصل کریں اور وہاں اپنی مصنوعات پینچا سکے جس سے پاک افغان ریاستوں کو کافی فوائد ملیں گے اور اگر افغانستان میں بے چینی قائم رہتی ہے تو پھر یہ پورا خطہ بے قرار رہیگا اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک اچھے دوستانہ تعلقات برقرار رکھیں اور ملکر آگے بڑھیں کیونکہ پڑوسی تبدیل نہیں ہوتے اور نہ ہی پڑوسیوں کے مابین جغرافیہ تبدیل ہو سکتا ہے تو پھر عوامی اور حکومتی سطحوں پر اچھے برادرانہ تعلقات کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے کام آئینگے تو ترقی کرینگے اور دونوں ممالک کے عوام خوشگوار زندگی گزارنے کے قابل ہونگے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں رابطہ نہیں ٹوٹنا چاہئے، کمیونیکیشن جاری رہنی چاہئے اور تجارتی گزرگاہوں کو ہر حال میں کھلا رکھنا چاہئے تاکہ ٹینشن کے ماحول کو اس طرح کم کیا جا سکے اور دونوں ممالک کی مصنوعات اور پیداوار سے عام غریب لوگ استفادہ کر سکے اور کسی کا روزگار اور معاش خراب نہ ہو تعلقات کی مضبوطی کے لئے عوامی اور قبائلی سطح پر روابط بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ بارڈر کے دونوں طرف پشتون قبائل آباد ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ پاک افغان تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوں

You might also like
کمنٹ کریں

Your email address will not be published.