طورخم کسٹم سپرنٹنڈنٹس، انسپکٹرز اور پولیس کے اوپر مانیٹرنگ اور چیکنگ کا مثر نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جاری کرپشن اور بدعنوانیوں کا خاتمہ کیا جا سکے طورخم، جمرود بھیگیاڑی اور باڑہ تحصیل میں قبائلی پولیس اہلکاروں نے کھلے عام مال بردار گاڑیوں سے رشوت لینے کو سابق روایتی انداز میں شروع کر دیا ہے جن کے اوپر کوئی روک ٹوک نہیں اور پولیس کے ضلعی ذمہ دار ڈی پی او خیبر بظاہر تو تنبیہ کرتے رہتے ہیں لیکن عملا وہ کرپشن کے اس کھیل کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی شاید اس بہتی گنگا میں ہاتھ پاں دھو رہے ہیں یا پھر وہ ان کے سامنے بے بس ہیں
کچھ ذمہ دار اہلکاروں نے بتایا ہے کہ ڈی پی او خیبر جن جونئیر اہلکاروں کو طورخم میں تعینات کرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر سینئر اہلکار تعینات کئے گئے تو پھر وہ کرپشن کی رقم پوری اوپر نہیں پہنچائیں گے اور نہ ہی بیچ میں سفارش کرنے والے میڈل مین کو گھاس ڈالیں گے ڈی پی او خیبر زیادہ تر پولیس کے ماتحت اہلکاروں کو جانتے بھی نہیں بس میڈل مین جن اہلکاروں کے نام پیش کرتے ہیں لاٹری میں انہی کے نام نکلتے ہیں اور اب تو یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ منافع بخش پوسٹوں پر تعیناتی کے لئے بولی لگتی ہے
ذمہ دار ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بعض منافع بخش پوسٹوں پر تعیناتی کے لئے ایڈوانس میں چار لاکھ روپے دینے پڑتے ہیں اور ہفتہ واری الگ سے کارخانوں مارکیٹ یا پھر دوسری جگہوں میں رکھنی پڑتی ہے جہاں سے میڈل مین رقم وصول کرکے اپنی کمیشن منہا کرکے باقی رقم پہنچا دیتے ہیں سفارش کرنے والوں میں ایک افغان تاجر کا نام بھی بتایا جاتا ہے اور ان پوسٹ کمانڈروں پر منشی مقرر کئے گئے ہیں جو نہ صرف گاڑیوں کی تعداد لکھتے ہیں بلکہ وہ بھی گاڑیوں سے پیسے لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ٹرانسپورٹرز زار و قطار روتے رہتے ہیں جمرود میں تو پولیس اہلکار مجبور ہیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر کوئی ڈرامہ کرکے ہیروئین پکڑے اور مبینہ طور پر ڈی پی او خیبر ماتحت پولیس اہلکاروں کو روزانہ گائیڈ لائن دیتے ہیں کہ منشیات پکڑی جائے
راقم کو لنڈیکوتل کے ایک سابق ایس ایچ او نے بتایا کہ ڈی پی او خیبر ان کو بار بار انسٹرکشن دیتے تھے کہ لنڈی کوتل میں منشیات پکڑی جائے جبکہ وہ بتاتے رہتے کہ جہاں منشیات نہیں وہاں کیسے کارروائی کی جائے بحرحال پورے ضلع خیبر میں پولیس فورس نے کرپشن میں اضافہ کرکے پرانے ریکارڈز بھی توڑ دیئے ہیں اور اگر ٹرانسپورٹروں سے پوچھا جائے تو وہ کھلے عام جاری رشوت ستانی کو بیان کرتے ہیں تو ظاہر ہے پولیس کی ہائی کمان کی آشیر باد کے بغیر یہ سب کچھ ممکن نہیں اور کبھی کبھی یہ بھی دیکھنا پڑا ہے کہ جو کمزور اہلکار ہوتے ہیں ان کو معطل کرکے سزا دی جاتی ہیں حالانکہ ان کے پاس بھی سارے راز موجود ہوتے ہیں جن کو ظاہر کرنے سے بڑے بڑے مگرمچھ قانون کے جال میں پکڑے جا سکتے ہیں اور یہی حال طورخم کسٹم حکام اور این ایل سی کا بھی ہے این ایل سی والوں نے ایف بی آر سے ملکر ایک تو خوگہ خیل کی اضافی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے جن کے خلاف گزشتہ نوے دنوں سے طورخم میں خوگہ خیل قوم کے افراد کا احتجاجی دھرنا جاری ہے
خوگہ خیل قوم الزام لگاتی ہے کہ این ایل سی ایک پرائیویٹ ادارہ ہے جس نے طورخم میں مقامی لوگوں کا روزگار اور کاروبار بری طرح متاثر اور خراب کر دیا ہے حالانکہ طورخم کے راستے برآمدات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا گیا ہے تاہم پھر بھی حکومت سب ٹھیک کی رٹ لگائے رہتی ہے طورخم کسٹم حکام کی ملی بھگت سے طورخم کے راستے جو سمگلنگ ہو رہی ہے وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں کسٹم حکام نے مختلف جگہوں پر پرائیویٹ بندے بیٹھا رکھے ہیں جو جی ڈی فائل ہونے کے باوجود بھی ڈھائی سے پانچ ہزار تک روپے لیتے ہیں اور اس رقم کو سپیڈ منی کا نام دیا گیا ہے اور سپیڈ منی کی یہ رقم پھر آفسران میں حصہ بقدر جثہ تقسیم کر دی جاتی ہے جن میں سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹرز شریک ہیں یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ کسٹم حکام اور کلئیرنگ ایجنٹس آپس میں ملے ہوئے رازدان ہیں جن کے اوپر ہمیشہ یہی الزام لگتا ہے کہ جو سامان جی ڈی میں ظاہر کیا جاتا ہے اس کے نیچے اور بھی چیزیں کلئیر کر دی جاتی ہیں جن پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا اور یہی بات بطور ثبوت کافی ہے کہ کسٹم حکام و دیگر مختصر مدت میں کروڑ پتی بن جاتے ہیں حالانکہ ان کو جو جائز کمیشن ملتی ہے وہ بہت کم ہوتی ہے جس سے ان کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں غرض یہ کہ انضمام کے بعد مختلف ادارے آئے تو سہی لیکن لوگوں کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں
پولیس فورس کے اہلکار الگ سے رو رہے ہیں کہ ابھی تک ان کو پولیس والی سہولیات اور مراعات فراہم نہیں کی گئی ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ موجودہ انضمامی نظام سے وہ پرانا سسٹم کافی بہتر تھا اب تو اس نئے نظام میں لوگوں کو لینے کے دینے پڑ گئے اسی طرح عام لوگ بھی مختلف نوعیت کی پریشانیوں سے دوچار ہیں اور سب سے زیادہ عدالتوں کے چکر کاٹنے اور سٹے آرڈر نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے جس کی وجہ سے روایتی قبائلی جرگہ بری طرح متاثر ہوا ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر دیکھا جائے تو طورخم سمیت دیگر قبائلی علاقوں میں میں لوگ پریشان حال ہو کر احتجاج پر اتر آئے ہیں اور احتجاج کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا ہے جبکہ دوسری طرف انضمام کے مخالفین نے بھی انہی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی تحریک تیز کر دی ہے اور جو لوگ انضمام کے حامی تھے وہ بھی بڑھتے ہوئے مسائل دیکھ کر گوشہ نشین ہو چکے ہیں اور تیسری طرف حکومت ہے جو کہ صرف کھوکھلے نعروں سے قبائلی عوام کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں بحرحال جن لوگوں کا خیال تھا کہ انضمام کے نتیجے میں کوئی بڑی تبدیلی آئیگی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا وہ مکمل طور پر مایوس ہیں اور کہتے رہتے ہیں کہ موجودہ نئے نظام سے پولیٹیکل انتظامیہ کا نظام کافی بہتر تھا بحرحال وقت کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں انضمام کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے اس لئے حکومت کو کچھ کرنا ہوگا ورنہ انضمام مخالف تحریک میں تیزی آئیگی اور پھر بہت پریشان کن صورتحال بنے گی۔